غزل : جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
درد منت کشِ دوا نہ ہوا=میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو=ایک تماشا ہوا، گلہ نہ ہوا
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں=تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب=گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
ہے خبر گرم اُن کے آنے کی=آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی=بندگی میں میرا بھلا نہ ہوا
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی=حق تو یہ ہے کے حق ادا نہ ہوا
زخم گر دب گیا لہو نہ تھما=کام گر رُک گیا روا نہ ہوا
رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے=لے کے دل دل ستاں روانہ ہوا
کچھ تو پڑھئے کہ لوگ کہتے ہیں=آج غالب غزل سرا نہ ہوا
Posts (Atom)
: سبسکرائب کریں